نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

ڈیورنڈ لائن اور افغانستان کا دعوی

 پاکستان کی سرزمین پر افغانستان کا دعوی افغانستان کا دعوی ہے کہ اٹک تک پاکستان دراصل افغانستان کا علاقہ ہے جو ہم نے انگریز کو 100 سال کے لیے لیز پر دیا تھا جو اب پوری ہوچکی ہے لہذا ہمیں  یہ علاقے واپس چاہئیں۔ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان، کے پی کے اور قبائیلی اضلاع پر دعوی کرتے ہیں۔  چونکہ افغانستان بزور طاقت یہ علاقے حاصل نہیں کرسکتا اس لیے اس نے سازش کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان میں شورشوں اوربغاؤتوں کی پشت پناہی کرنے لگا۔ قیام سے آج تک افغانستان کی برپا کی گئی ان شورشوں میں اب تک ایک لاکھ پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور سینکڑوں ارب ڈالر کا ۔ لیکن پاکستان کے خلاف ان پراکسیز نے خود افغانستان کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا اور اس وقت دنیا کا پسماندہ ترین ملک ہے۔  آئیں آج افغانستان کے پاکستان کی سرزمین پر اس دعوے اور اسکی حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں۔  افغانیوں نے اپنا یہ تباہ کن دعوی تین چیزوں کی بنیاد پر رکھا ہے۔ پہلی ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ، دوسری یہ کہ ان علاقوں پر افغانستان حکومت کر چکا ہے اور تیسری 'لروبر یوافغان' یعنی افغانستان اور پاکستان کے تمام پشتون افغانی ...
حالیہ پوسٹس

سینیٹر مشتاق کا جھوٹ

  سینیٹر مشتاق نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان کے 161 جرنیل ڈالروں میں پنشن لے رہے ہیں جو تقریباً 200 ملین ڈالر رقم بنتی ہے اور اس کی وجہ سے پاکستان غریب ہے۔  اگر 200 ملین ڈالر کو 161 پر تقسیم کریں تو فی جرنیل سوا ملین ڈالر یا تقریباً 33 کروڑ روپے پنشن بنی۔ یعنی سینیٹر مشتاق نے تکا تو لگایا لیکن زیادہ حساب کتاب ضروری نہیں سمجھا۔ وہ جانتا ہے کہ اس قسم کا کوئی بھی دعوی سوشل میڈیا پر پوسٹ کردو تو کوئی بھی تحقیق میں نہیں پڑتا نا زیادہ غور کرتا ہے اور خوب وائرل بھی ہوجاتا ہے۔ خاص کر سینیٹر مشتاق کی طرح آپ مکاری کر کے 150 یا 160 کی جگہ 161 لکھیں تو لوگوں کو لگتا کہ سینیٹر نے خود گنے ہونگے تبھی بلکل صحیح تعداد لکھی ہے۔  سچائی یہ ہے کہ 1959ء تک ڈالروں میں پنشن لینے کا قانون موجود تھا۔ جس کے بعد ختم ہوگیا۔ 1959 یا اس سے پہلے کے سرکاری ملازمین آج بھی ڈالرز میں پنشن لے سکتے ہیں۔ اس وقت 3 ایسے جرنیل زندہ ہیں جنکی عمریں 85 سال سے اوپر ہیں اور اس قانون کے مطابق پنشن لے سکتے ہیں اور 140 بیورکریٹ ایسے زندہ ہیں جو ڈالرز میں پنشن لے رہے ہیں۔ ان سب کی مجموعی پنشن 5 کروڑ روپے بھی نہیں بنتی۔  ...

سیلاب کے خلاف کیا آپشنز ہیں؟

۔ انڈیا نے پانی چھوڑنے سے صرف ایک دن پہلے اتنا کہا کہ ہم نے ڈیم کھول دئیے ہیں۔ کتنا پانی آئیگا وہ بھی نہیں بتایا۔ لیکن فرض کریں انڈیا ہمیں پانچ دن پہلے بتا دیتا اور پانی کی مقدار بھی بتا دیتا تو بھی پاکستان کے پاس کیا آپشنز تھے؟ کیا ڈیم موجود تھے جن میں ذخیرہ کر لیتے؟  جواب ہے نہیں۔  کیا خشک نہریں موجود تھیں جن میں پانی کا رخ موڑ لیتے؟ جواب ہے نہیں۔  ڈیموں اور خشک نہروں کے خلاف تو حال ہی میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں نے خود مہم چلائی تھی۔  پھر کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے تجاؤزات کو روکا ہے سندھ، پنجاب یا خیبرپختونخواہ میں؟ جواب ہے نہیں۔ تینوں صوبوں میں تجاوزات موجود ہیں۔ بلکہ دریائے راوی کے کنارے چھوڑیں، اس کے بیڈ پر ہمارے ایک سابق وزیراعظم عمران خان نے سوسائٹی بنوا لی تھی اور اسکی تشہیر کر کے لوگوں کو پلاٹ لینے کی دعوت بھی دی تھی۔  پھر آخر میں ایک ہی چیز بچتی ہے کہ کیا ہم نے دریاؤں کے کنارے مضبوط حفاظتی پشتے بنائے ہیں۔ پورے دریا پر نہ سہی صرف شہری علاقوں میں۔  جواب ہے نہیں۔  بلکہ لاہور میں عمران خان حکومت راوی کنارے سوسائٹیز سے حف...

عمران خان کا راوی سٹی سکینڈل

۔ دنیا کے سب سے بڑے وژنری عمران خان کی ویڈیو اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ کسی پراپرٹی ڈیلر کی طرح اپنی ھاؤسنگ سوسائٹی کی تشہیر کر رہا ہے۔ یاد رہے موصوف تب وزیراعظم پاکستان تھا۔ اس اشتہار میں  وہ بتا رہا ہے کہ راوی سکڑ کا نالہ بن جائیگا لہذا میں اس خشک دریا میں یہاں ایک عظیم سوسائیٹی لانچ کر رہا ہوں۔ عوام ہم سے پلاٹ خریدیں۔ اس منصوبے کا ایک پس منظر ہے۔ اس سے پہلے عمران خان ملک ریاض سے تعلقات استوار کر چکا تھا۔ اس کو 190 ملین پاؤنڈ بخش کر اس سے 8 ارب روپے کیش، زمین اور جواہرات کی شکل میں وصول کر چکا تھا۔ پھر ملک ریاض نے عمران خان کے ساتھ ملکر خیبرپختونخوا میں بغیر زمین کے بحریہ پشاور لانچ کی۔ صرف فائلیں بیچ کر خیبرپختونخوا سے 50 ارب روپے سمیٹ لیے کسی کو ایک انچ زمین دئیے بغیر۔ اس میں سے عمران خان کو اسکا حصہ دے کر باقی ملک ریاض ہضم کر گیا۔ خیبرپختونخوا کے جس ایماندار افسر نے اس میں رکاؤٹ ڈالنے کی کوشش کی اس کو عمران خان نے ہٹا دیا تھا۔ وہ واقعہ بھی کافی مشہور ہے۔   لیکن عمران خان کے منہ کو پراپرٹی کا خون لگا گیا۔ اس کو آئیڈیا ہوگیا کہ اس کام میں بہت مال ہے۔ جس کے...

اٹھارویں آئینی ترمیم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام

اٹھارویں آئینی ترمیم کا مقصد یہ تھا صوبوں کا احساس محرومی دور کرنا اور پاکستان کو مضبوط کرنا۔ اس مقصد کے لیے فنڈز کا اکثر حصہ اور وسیع پیمانے پر اختیارات صوبوں کو دئیے گئے۔ خیال یہ تھا کہ صوبے فنڈز نچلی سطح پر متنقل کرینگے۔ اپنے مسائل زیادہ اچھے سے خود نمٹائنگے اور انکا احساس محرومی ختم ہوگا۔ وفاق سے شکایات کم ہونگی اور پاکستان مضبوط ہوگا۔  لیکن ہوا اس کے بلکل برعکس۔ صوبوں نے فنڈز اور اختیارات تو لیے لیے لیکن ذمہ داری نہیں لی۔ وفاق کو کنگال کر کے بھی فنڈز عوام تک نہیں پہنچنے دئیے۔ محرمیوں کے لیے بدستور وفاق کو ذمہ دار ٹہرانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سونے پہ سہاگہ جو  جو اضافی اختیارات ملے انکی مدد سے وفاق کو بلیک میل کرنا بھی شروع کردیا۔ نتیجے میں پہلے صوبوں میں صرف احساس محرومی تھا اب باقاعدہ علیحدگی کی باتیں ہونے لگیں۔  اس کی ایک مثال صوبہ خیبرپختونخواہ ہے۔ اس صوبے کو اتنا بجٹ دیا جاتا ہے کہ اسکا وزیراعلی خود کہتا ہے کہ ہمارے پاس ڈیڑھ سو ارب روپے سرپلس بجٹ ہے یعنی ضرورت سے ڈیڑھ سو ارب روپے زیادہ۔ لیکن اس کے باؤجود وہ صوبے میں کسی ایک چیز کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ نہ سڑک...

جسٹس اطہر من اللہ کے بارے میں

۔ جسٹس اطہر من اللہ جج بننے سے پہلے اپنے باپ کی سفارش پر سول سروس میں بطور کسٹم آفیسر گئے اور جاتی ہی کرپشن اور رشوت خوری پر جبری ریٹائرڈ کیے گئے۔ وہاں سے اپنے سسر کی سفارش پر وکیل بنے۔ افتخار چوہدری کی تحریک میں اس کے ترجمان بن گئے جس پر اس کو افتخار چوہدری نے جج بنوا دیا۔  اسکی بیوی غزالہ اطہر من اللہ یونیورسٹی کالج میں شعبہ قانون کی ڈین ہے۔ مردوں کی طرح بال کاٹنے والی غزالہ وہاں قانون کے بجائے طلباء کو یوتھیا بنانے کے مشن پر رہتی ہیں۔ اطہرمن اللہ کے دونوں بیٹے کینیڈین نیشنل ہیں اور خود اطہر من اللہ کے بارے میں بھی اس کے ساتھی کہتے ہیں کہ کینیڈا کی نیشنلٹی لے چکا ہے۔ اس کے ایک بیٹے یاسر من اللہ کی اکثر نشے میں دھت کلبوں میں ڈانس کرنے کی وڈیوز آتی رہتی ہیں۔  اطہر من اللہ کی بہن ثمر من اللہ فلمیں وغیرہ بناتی ہیں۔ مشہور ہم جنس پرست ہیں۔ اسی نے بدنام زمانہ سوات کی جعلی ویڈیو بنائی تھی۔  جسٹس اطہر من اللہ کسی لینڈ لارڈ خاندان سے نہیں ہیں۔ نہ ہی کوئی فیملی بزنس ہے۔ اس کے باؤجود جج بننے کے بعد ارب پتی ہوچکے ہیں۔ کہاں سے آئی یہ دولت کے جواب میں ایک مثال دیتا ہوں۔ موصوف نے چک شہ...

فیلڈ مارشل عاصم منیر اور انڈیا کی سفارتی تنہائی

۔ پاکستان کے خلاف بھارت کو چار ممالک کا تعاون حاصل رہا: امریکہ، افغانستان، ایران اور بنگلہ دیش۔ یہ تعاون مختلف شکلوں میں موجود تھا اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم جب عاصم منیر نے پاکستانی فوج کی قیادت سنبھالی تو حالات بدلنا شروع ہوگئے۔ سب سے پہلے بنگلہ دیش میں ایک تیز رفتار انقلاب آیا جو بھارت کی پچاس سالہ محنت کو بہا کر لے گیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے منہ پر عوام نے پیشاب کیا، اسے بھارت کا ایجنٹ اور غدار قرار دیا اور اپنی کرنسی تک سے اس کی تصویر کھرچ ڈالی۔ پھر بنگلہ دیش تیزی سے پاکستان کے قریب آگیا۔ اب تو بنگالی یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ پاکستان اپنے میزائل بنگلہ دیش میں بھی نصب کر دے۔ بھارت چیخ رہا ہے کہ یہ سب عاصم منیر کا کیا دھرا ہے۔ بعد ازاں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوئی۔ بھارت کو مار پڑی تو ٹرمپ نے سیز فائر کروا دیا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے فوراً ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا بلکہ جنگ بندی پر اسے نوبل انعام کا حقدار بھی قرار دیا۔ مودی پھنس گیا، کیونکہ وہ تسلیم نہیں کر پا رہا تھا کہ ٹرمپ نے سیز فائر کروایا ہے، ورنہ شکست کا پول کھل جاتا۔ یوں وہ انکار پر اَڑا رہا جس سے ٹرمپ ناراض...